بے نظیر کے خون میں لتھڑے ہاتھ!! سہیل وڑائچ

بے نظیر

ہر خونِ ناحق کی سزا دینا ذمہ دار ریاست پرفرض ہوتا ہے اور جو ریاست اپنی سب سے مقبول لیڈر بے نظیر بھٹو کے ناحق قتل کے براہ راست یا بالواسطہ ذمہ داروں کو ان کے منطقی انجام تک نہیں پہنچا سکی اسے نرم سے نرم الفاظ میں کمزور اور مصلحت پسند ریاست ہی تو کہا جائے گا، ایسی ریاست نہ مضبوط کہلا سکتی ہے اور نہ قانون و آئین کی پابند۔ یہاں آج بھی طاقتور اداروں کے سابق افسر اور دہشت گرد تنظیموں کے اراکین اتنے طاقتور ہیں کہ دن دہاڑے مسلم دنیا کی سب سے مقبول رہنما بے نظیر بھٹو (بقول فرید ذکریا) کو راولپنڈی میں سرِبازار قتل کرکے اب بھی دندناتے پھر رہے ہیں۔ گو القاعدہ اور طالبان کے وہ بڑے نام جو اس قتل کی سازش میں براہ راست اور بالواسطہ شریک تھے وہ سب ایک ایک کرکےامریکی ڈرون حملوں میں دوسرے جہان پہنچ چکے ہیں مگر اب بھی کئی سہولت کاروں کی جاں بخشی کرکے انہیں بچایا گیا ہے۔ ریاست کے وہ اہلکار جنکی غفلت، لاپروائی، تکبر اور شاید نفرت اور سازش بھی اس قتل میں پوری طرح کارفرما تھی، ان پر نہ مقدمے چلے نہ انہیں کبھی تھانے کچہری بلایا گیا ،وہ اتنے طاقتور اور گھمنڈی ہیں کہ دنیا کے سب سے بڑے اور طاقتور ادارے اقوام متحدہ کی طرف سے قائم کردہ کمیشن میں بھی علانیہ طور پر پیش ہونے سے انکار کر گئے اور جو عمال پیش بھی ہوئے انہوں نے اقوام متحدہ کمیشن کو حقیر اور ناکارہ جانتے ہوئے نہ صرف انکی بے عزتی کی بلکہ ان سے بدتمیزی بھی کی اور یہ سب کچھ کرنے کے باوجود وہ پاکستان میں زندہ، بااثر اور معزز ہیں۔ نہ کوئی انہیں ہاتھ لگا سکتا ہے اور نہ ہی قتل کی سازش کے حوالے سے ان سےکوئی سوال و جواب کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کمیشن کے سربراہ ہیرالڈومنزو نےاس قتل کی تحقیق و تفتیش پر مبنی اپنی تاثراتی کتاب کا نام GETTING AWAY WITH MURDERجس کا اردو میں مطلب ہے قتل کرکے بچ نکلنے والے لوگ۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کی 72 سالگرہ پر یادوں کا ایک سلسلہ ہے جو چلا آ رہا ہے۔ 1986ء میں انکی لاہور آمد سے لے کر 2007ء تک ان کی شہادت تک ان سے ہونے والی درجنوں ملاقاتیں، انٹرویوز، راز ِدروں کہانیاں، ان سے لڑائیاں اور ان کی بے پایاں شفقت یہ سب ذہن میں محفوظ ہے۔ محترمہ کے قتل ناحق پر اس عاجز نے ساڑھے تین سال تحقیق و تفتیش پر مبنی کتاب ’’قاتل کون؟‘‘ میں ان کے ظاہری اور چھپے قاتلوں کی نہ صرف نشاندہی کی بلکہ ان میں سے ہر ایک کے کردار پر سائنسی اور غیر جانبدارانہ تجزیہ بھی کیا ۔ محترمہ کی 72 ویں سالگرہ پر آج میں کچھ چھپے کرداروں کو سامنے لانا چاہتا ہوں تاکہ آج کی ذمہ دار اور طاقت ور ریاست ان ملزموں اور مجرموں کا نہ صرف ٹرائل کرے بلکہ ریاست خود مدعی بن کر گواہیاں پیش کرے تاکہ آئندہ سے ریاست اور دہشت کے نام پر خون ناحق بہنے کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے اور اگر یہ مقدمات نہیں چلتے اور ریاست خود مدعی نہیں بنتی تو پھر نہ خون ناحق بہنےکا سلسلہ رکے گا نہ ریاستی دہشت گردی ختم ہوگی اور نہ ہی بین الاقوامی داغ مٹے گا کہ پاکستان میں دہشت گردی کی ریاستی سرپرستی کی جاتی ہے۔

مزید پڑھیں: ایران کا جوابی وار، اسرائیل لرز اٹھا، عمارتیں‌تباہ، 10 اسرائیلی ہلاک، 200 زخمی، 20 افراد لاپتہ

27دسمبر 2007ء کو بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جب قومی اسمبلی وجود میں آئی تو اس وقت کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن، دونوں نے پارلیمان سے متفقہ قرارداد کے ذریعے محترمہ کی شہادت کی تفتیش اقوام متحدہ سے کروانے کا مطالبہ کیا ۔اس سے پہلے لبنان کے وزیر اعظم رفیق حریری کے قتل کی تفتیش بھی اقوام متحدہ کر چکا تھا۔ اقوا م متحدہ کمیشن نے پاکستان اور بیرون ملک اس قتل کی مکمل تحقیق کی، بین الاقوامی ماہرین کی مدد سے کی، دنیا کے سب سے مشہور تفتیشی ادارے سکاٹ لینڈ یارڈ نے فرانزک شواہد کی بنا پر سائنسی تحقیق کی۔ اقوام متحدہ نے بڑی محنت سے تیار شدہ رپورٹ کا اعلا ن کردیا۔ صدر زرداری نے ابتدائی طور پر اس رپورٹ پر اطمینان کا اظہار کیا۔ اقوام متحدہ کمیشن رپورٹ میں جہاں طالبان اور القاعدہ کے ناموں کی نشاندہی کی گئی تھی وہاں ایک میجر جنرل سمیت فوجی اہلکاروں اور ایک ڈی آئی جی سمیت پولیس اہل کاروں کے خلاف مقدمات چلانے کی سفارش کی گئی تھی۔ جب فوج اور پولیس کے حاضر سروس اہل کاروں کے نام آگئے تو اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کا ماتھا ٹھنکا۔ اس وقت گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کا دور تھا، میمو گیٹ آنے والا تھا۔ جنرل کیانی سرشام باوردی جرنیلوں کے ساتھ ایوان صدر پہنچے۔ صدر زرداری پر دبائو ڈالا یا انہیں قائل کیا۔ مگر کہا یہی ہوگا کہ اگر اقوام متحدہ کمیشن کے تحت حاضر سروس افسروں پر مقدمے چلے تو فوج بدنام ہوگی ،پاکستان ناکام ریاست ثابت ہو جائےگا۔ صدر زرداری نے ایک بار پھر ’’پاکستان کھپے‘‘ کا دل ہی دل میں نعرہ لگایا ہوگا اور سب کے جرائم معاف کرتے ہوئے اقوام متحدہ کمیشن کو خط لکھا ہو گاکہ آپ کی رپورٹ پرریاست پاکستان کوشدید تحفظات ہیں اس لئے اس رپورٹ پر عملدرآمد نہیں ہوسکتا۔ یوں جنرل کیانی سب ملزموں اور مجرموں کے مدعی بن کر بہ ہمراہ لائو لشکر آئے اور سب کیلئے اجتماعی معافی لے کر چلے گئے اس کے بعد سے وہ تحقیق و تفتیش سرد خانے میں ہے۔ کون پوچھے کہ ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ میجر جنرل ندیم اعجاز کمیشن کے سامنے کیوں پیش نہ ہوئے؟کون جانے کہ ڈی آئی جی سعود اقوام متحدہ کمیشن سے کیوں الجھے تھے؟ کون بتائے کہ اقوام متحدہ کمیشن کے اراکین پر فوجی پہرہ اور جاسوسی کا ذمہ دار کون تھا؟ کیسے پتہ چلے کہ روگ ریاست کی طرف دھکیلنے والے ریاستی کردار کون تھے۔ بے نظیر بھٹو پر فائر کرنے والا سعید عرف بلال تو وہیں ہلاک ہوگیا اسے وہاں لانے والے حسین اور رفاقت جیل میں ہیں، وہ دو مشکوک افراد جو کسی ایجنسی اور طالبان کے مشترکہ ایجنٹ تھے۔ نصر اللہ عرف احمد اور قاری نادر عرف اسماعیل پراسرار فوجی مقابلے میں مارے گئے۔بیت اللہ محسود، مصطفیٰ ابویزید (سعید الموی) اور ایمن الظواہری ڈرون حملوں میں قتل ہوئے، براہ راست ملوث لوگ تو مارے گئے بالواسطہ لوگ ریاست پاکستان کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں، ان کا کھلا مقدمہ چلنا چاہیے اور انہیں سامنے آکر مقابلہ کرنا چاہیے اگر وہ واقعی بے گناہ ہیں وگرنہ قتل کی معافی نہیں ملنی چاہیے۔
بشکریہ جنگ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *