اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹس نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل نے ایران کے خلاف فضائی حملے کیے ہیں، جن میں ایران کے درجنوں جوہری پروگرام اور دیگر عسکری اہداف کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
امریکی اور اسرائیلی میڈیا کے مطابق دارالحکومت تہران سمیت مختلف علاقوں میں زور دار دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں۔
ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے ارنا نے تصدیق کی ہے کہ تہران پر کیے گئے اسرائیلی حملوں میں مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری اور پاسداران انقلاب کے چیف کمانڈر میجر جنرل حسین سلامی جاں بحق ہو گئے۔ ایران کے جوہری سائنسدان محمد مہدی طہرانچی اور ایرانی ایٹمی توانائی تنظیم کے سابق سربراہ فریدون عباسی سمیت خاتم الانبیا ہیڈکوارٹرز کے کمانڈر میجر جنرل غلام علی راشد کی موت کی بھی تصدیق کردی گئی ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اسرائیلی حملوں میں ایران کے 6 جوہری سائنسدان مارے گئے ہیں جبکہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے مشیر خاص کمانڈر علی شمخانی بھی شدید زخمی ہوئے ہیں۔
اسرائیلی حملے میں خواتین اور بچوں سمیت 5 ایرانی جاں بحق، درجنوں زخمی
ایرانی سرکاری میڈیا کے مطابق، اسرائیلی فضائی حملوں میں تہران کے رہائشی علاقوں کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں 5 شہری جاں بحق اور 20 زخمی ہو گئے۔
ایرانی نیوز چینل پریس ٹی وی نے دعویٰ کیا ہے کہ حملوں کا نشانہ عام شہری علاقوں کو بنایا گیا، جہاں خواتین اور بچوں کی لاشیں دیکھی گئی ہیں۔
تباہ شدہ رہائشی عمارتوں کی تصاویر سرکاری ٹی وی اور عینی شاہدین کی رپورٹوں میں بھی نشر کی گئی ہیں۔
پریس ٹی وی کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (X) پر جاری ویڈیوز میں نطنز (اصفہان) میں اسرائیلی میزائل حملے کے مناظر اور دھماکوں کے بعد اٹھتے ہوئے دھوئیں کے بادل نمایاں طور پر دکھائے گئے ہیں۔
برطانوی میڈیا نے ایرانی سرکاری ٹیلی ویژن کے حوالے سے خبر دی ہے کہ اسرائیلی فضائی حملوں میں دو سینئر جوہری سائنسدان مارے گئے جن کی شناخت کر لی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق مرنے والوں میں سے ایک ڈاکٹر فریدون عباسی ہیں، جو ایرانی ایٹمی توانائی ادارے (AEOI) کے سابق سربراہ رہ چکے ہیں۔ یہ ادارہ ایران کی جوہری تنصیبات کا ذمہ دار ہے۔
یاد رہے کہ فریدون عباسی پر 2010 میں تہران کی ایک سڑک پر قاتلانہ حملہ بھی کیا گیا تھا، جس میں وہ بچ گئے تھے۔
دوسرے سائنسدان محمد مہدی طہرانچی ہیں، جو تہران میں اسلامی آزاد یونیورسٹی کے صدر کے عہدے پر فائز تھے۔
امریکا کا جنگ سے لاتعلقی کا اعلان
ایران پر اسرائیلی فضائی حملوں کے بعد امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے ایک اہم بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا ان حملوں میں شامل نہیں ہے اور اس کی اولین ترجیح خطے میں موجود امریکی افواج کا تحفظ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل نے ایران کے خلاف یکطرفہ کارروائی کی، امریکا ان حملوں میں شامل نہیں ہے۔ ہماری اولین ترجیح مشرقِ وسطیٰ میں تعینات امریکی افواج کا تحفظ ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی فضائیہ نے ایران کے اعلیٰ سیاسی اور فوجی حکام کے رہائشی علاقے پر حملہ کیا ہے۔
اسرائیلی وزیر دفاع نے ملک میں ہنگامی حالت نافذ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کی جانب سے ممکنہ جوابی کارروائی کی توقع ہے، اس لیے سکیورٹی الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔
یروشلم میں شہریوں کو سائرن کی آواز سے بیدار کیا گیا، جس کے فوراً بعد موبائل فونز پر خطرے سے آگاہی کے پیغامات بھی موصول ہوئے۔
امریکی ٹی وی میڈیا رپورٹس کے مطابق صدر ٹرمپ نے صورتحال کے باعث کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے۔
ایران کے آرمی چیف میجر جنرل محمد باقری بھی مارے گئے، مغربی میڈیا
غیر ملکی میڈیا نے ایرانی سرکاری ٹیلی ویژن کے حوالے سے خبر دی ہے کہ اسرائیل کی جانب سے کیے گئے فضائی حملوں میں تہران میں واقع اسلامی انقلابی گارڈز (پاسدارانِ انقلاب) کا ہیڈکوارٹر نشانہ بنا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق اسرائیلی حملے میں ایرانی چیف آف اسٹاف میجر جنرل محمد باقری، کمانڈر حسین سلامی کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے، جبکہ اسرائیلی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ حملے میں متعدد سینئر جوہری سائنسدان بھی مارے گئے ہیں۔
غیر ملکی میڈیا کی خبروں کے مطابق اسرائیلی فضائی حملوں میں ایران کے اسلامی پاسدارانِ انقلاب (IRGC) کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی مارے گئے۔
اگر یہ اطلاعات درست ثابت ہوتی ہیں تو سلامی ایران کے سب سے سینئر فوجی رہنماؤں میں سے ایک ہیں جو حالیہ حملوں میں مارے گئے۔
میجر جنرل حسین سلامی نے 1980 میں ایران-عراق جنگ کے آغاز پر پاسدارانِ انقلاب میں شمولیت اختیار کی۔ وقت کے ساتھ وہ فوجی رینکس میں ترقی کرتے گئے اور امریکہ و اس کے اتحادیوں کے خلاف سخت بیانات دینے کے حوالے سے مشہور ہوئے۔
اسرائیلی حملوں پر عالمی ردعمل آنا شروع
آسٹریلیا کی وزیر خارجہ پینی وونگ نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر ہمیں شدید تشویش ہے۔ یہ ایک ایسے خطے کو مزید غیر مستحکم کر سکتی ہے جو پہلے ہی عدم استحکام کا شکار ہے۔
ایران کے رہبرِ انقلاب آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا اسرائیلی حملوں پر ردعمل
ایران کے رہبرِ انقلاب آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے صیہونی فضائیہ کے حملوں پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے اپنے تلخ اور دردناک تقدیر کی بنیاد رکھ دی ہے۔
اسلامی انقلاب کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے آج صبح قوم سے خطاب میں اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کی ہے، جن میں تہران سمیت ایران کے دیگر شہروں کو نشانہ بنایا گیا۔
اسرائیلی سیکورٹی حکام نے مزید حملوں کا عندیہ دے دیا
ایران پر ہونے والے حملے کو اسرائیل نے ’ آپریشن رائزنگ لائن ‘ کا نام دیا ہے، صیہونی فوجی حکام کا کہنا ہے کہ حملے کا پہلا مرحلہ ختم ہو گیا ہے، اور مزید حملے اس سے زیادہ طاقتور اور خطرناک ہوں گے، فوجی حکام کا مزید کہنا تھا کہ یہ حملے مزید دو ہفتے تک جاری رہ سکتے ہیں۔
اسرائیلی وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو کا بیان
اسرائیلی وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو نے ایران کے خلاف جاری فضائی کارروائی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل نے ’آپریشن رائزنگ لائن‘ کا آغاز کر دیا ہے، جس کا مقصد ایران سے درپیش خطرے کا خاتمہ ہے۔
نیتن یاہو نے کہا کہ چند لمحے قبل اسرائیل نے آپریشن رائزنگ لائن کا آغاز کیا، جو ایک مخصوص فوجی کارروائی ہے۔ اس کا مقصد ایران کے اس خطرے کو پیچھے دھکیلنا ہے جو اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ یہ آپریشن اس وقت تک جاری رہے گا جب تک یہ پھیلاؤ مکمل طور پر ختم نہیں ہو جاتا۔
اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا کہ اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار تو نہیں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ مہینوں میں ایران نے ایسے اقدامات کیے ہیں جو اس نے پہلے کبھی نہیں کیے تھے، اگر اسے نہ روکا گیا تو ایران چند ماہ یا ایک سال سے بھی کم عرصے میں جوہری ہتھیار بنانے کے قابل ہو سکتا ہے۔
وزیرِاعظم نیتن یاہو نے عالمی برادری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ایران کا ایٹمی پروگرام صرف اسرائیل ہی نہیں بلکہ خطے اور عالمی امن کے لیے بھی شدید خطرہ ہے۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ فضائی حملے ایران کے جوہری پروگرام اور عسکری تنصیبات پر مرکوز ہیں۔
اسرائیلی فوج کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق ان حملوں کا ہدف ایران کا جوہری پروگرام، طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل اور دیگر اہم عسکری تنصیبات تھیں۔ اسرائیلی فضائیہ نے ملک کے مختلف حصوں میں درجنوں اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔
اسرائیل نے ملک بھر میں خصوصی ہنگامی حالت نافذ کر دی
اسرائیلی ڈیفنس فورسز (IDF) کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ آج صبح 3 بجے (مقامی وقت کے مطابق) سے شہریوں کے لیے ’ ہوم فرنٹ کمانڈ گائیڈ لائنز ‘ میں تبدیلی کی گئی ہے، جس کے تحت ملک بھر میں سرگرمیوں کا دائرہ محدود کر دیا گیا ہے۔
اسرائیلی حکومت نے ملک میں تمام تعلیمی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی ہے، عوامی اجتماعات اور غیر ضروری دفاتر کو بند رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، صرف بنیادی اور ضروری شعبے سرگرم رہیں گے۔
یروشلم میں رات تین بجے کے قریب سائرن کی آوازوں اور موبائل فون الرٹس کے ذریعے شہریوں کو خطرے سے آگاہ کیا گیا جس کے بعد خوف و ہراس کی فضا پیدا ہو گئی۔
اسرائیلی جارحیت پر ایران کا جوابی حملہ، 100 سے زائد ڈرونز داغ دیئے
اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیلی حملوں کیخلاف جوابی کارروائی کرتے ہوئے ایران نے اسرائیل کے اوپر 100 ڈرونز سے حملہ کیا ہے جنھیں ہدف پر پہنچنے سے قبل ہی ناکارہ بنا دیا گیا ہے۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل ایفی ڈیفرن نے کہا ہے کہ ایران نے 100 یو اے ویز اسرائیلی کی طرف روانہ کیے جنھیں ناکارہ بنا دیا گیا۔
بریگیڈیئر جنرل ایفی ڈیفرن نے مزید کہا کہ گزشتہ رات کے حملوں میں ایرانی فوج کے چیف آف سٹاف، پاسدارن انقلاب کے کمانڈر اور ایران کی ایمرجنسی کمانڈ کے سربراہ مارے گئے ہیں۔
ایران کی جانب سے ممکنہ جوابی کارروائی کے پیش نظر اسرائیل میں ایمرجنسی نافذ ہے۔
انٹرنیشنل اٹامک ایجنسی نے نطنز میں ایرانی جوہری تنصیب پر اسرائیلی حملے کی تصدیق کردی
انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) نے تصدیق کی ہے کہ جمعے کی صبح کیے گئے اسرائیلی فضائی حملوں میں ایران کے نطنز میں واقع جوہری افزودگی کے مرکزی مقام کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
ایجنسی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ (سابقہ ٹوئٹر) پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا: “ایران میں تشویشناک صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔”
IAEA کے مطابق، ایرانی حکام کے ساتھ رابطے میں رہ کر تابکاری (ریڈی ایشن) کی سطح اور نطنز میں موجود ایجنسی کے معائنہ کاروں (انسپیکٹرز) کی سلامتی کی مسلسل نگرانی کی جا رہی ہے۔
نطنز ایران کی سب سے اہم اور حساس یورینیم افزودگی کی تنصیب سمجھی جاتی ہے، جہاں ماضی میں بھی متعدد حملے اور سائبر حملے ہو چکے ہیں۔ یہ حالیہ حملہ خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کا ایک نیا باب ثابت ہو سکتا ہے۔
سعودی عرب کی ایران پر اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت
سعودی عرب نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی سخت مذمت کرتے ہوئے اسے ایران کی خودمختاری اور سلامتی پر حملہ قرار دیا ہے۔
وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ کارروائیاں بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ “یہ گھناؤنے حملے ناقابلِ قبول ہیں، اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اور عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس جارحیت کو فوری طور پر روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کریں۔”
’اسرائیلی حملے کا علم تھا، لیکن امریکی فوج شامل نہیں تھی‘، ڈونلڈ ٹرمپ کا انکشاف
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی نشریاتی ادارے فاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ انہیں ایران کے خلاف اسرائیلی کارروائی کے منصوبے کا پہلے سے علم تھا، تاہم ان کا کہنا ہے کہ امریکی فوج نے اس آپریشن میں کسی قسم کا کردار ادا نہیں کیا۔
ٹرمپ نے امید ظاہر کی کہ ایران اپنے جوہری پروگرام پر نظر ثانی کرے گا اور امریکا کے ساتھ مذاکرات کی راہ اپنائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ “ایران کے پاس ایٹم بم نہیں ہونا چاہیے، اور ہم چاہتے ہیں کہ وہ مذاکرات کی میز پر واپس آئے۔”
ٹرمپ کے اس بیان کے بعد عالمی سیاسی تجزیہ کاروں نے خطے میں کشیدگی مزید بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے ایران پر کیے گئے حملوں نے نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جہاں تہران میں جوہری تنصیبات اور اعلیٰ فوجی حکام کو نشانہ بنایا گیا، وہیں عالمی برادری نے اسرائیلی کارروائی کو کھلی جارحیت قرار دیتے ہوئے سخت ردعمل دیا ہے۔
سعودی عرب کا سخت بیان: “یہ کھلی جارحیت ہے”
سعودی وزارت خارجہ نے ایک شدید الفاظ پر مبنی بیان میں کہا ہے: “سعودی عرب، برادر اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف صریح اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتا ہے، جو اس کی خودمختاری اور سلامتی کے خلاف ہے۔ یہ بین الاقوامی قوانین کی واضح خلاف ورزی ہے۔”
یاد رہے کہ سعودی عرب اور ایران نے دو سال قبل سفارتی تعلقات بحال کیے تھے، اور اب ایک بار پھر دونوں ممالک ہم آہنگی کے ساتھ اسرائیلی جارحیت کی مخالفت میں یک زبان نظر آ رہے ہیں۔
عمان: “خطرناک اور ناقابل قبول قدم”
سلطنت عمان نے اپنے بیان میں کہا کہ اسرائیلی حملہ “خطرناک غفلت پر مبنی شدت پسندی” ہے، جو اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔
انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کو روکے اور خطے کے امن کے تحفظ کے لیے واضح مؤقف اختیار کرے۔
اقوام متحدہ: “کشیدگی ناقابل برداشت حد تک پہنچ رہی ہے”
سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ، انتونیو گوتریس کے ترجمان نے کہا: “ہم اسرائیلی حملوں پر گہری تشویش رکھتے ہیں، خاص طور پر جب ایران اور امریکا کے درمیان جوہری مذاکرات جاری ہیں۔ دونوں فریقین کو تحمل سے کام لینا چاہیے۔”
آسٹریلیا: “بات چیت کا راستہ اختیار کریں”
آسٹریلیا کی وزیر خارجہ پینی وونگ نے کہا: “ایران کا میزائل اور جوہری پروگرام عالمی امن کے لیے خطرہ ضرور ہے، لیکن ہم اسرائیل اور ایران دونوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ سفارتی حل کو ترجیح دیں۔”
نیوزی لینڈ: “یہ ایک خطرناک موڑ ہے”
وزیر اعظم نیوزی لینڈ کرسٹوفر لکسن نے کہا: “مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی افسوسناک ہے، اس سے مزید فوجی تصادم کا خطرہ بڑھ رہا ہے، جو دنیا افورڈ نہیں کر سکتی۔”