وفاقی حکومت نے ستائیسویں آئینی ترمیم کا مسودہ تیار کر لیا ہے، جس کے تحت ملک کے عدالتی نظام میں بڑی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں۔
ترمیم کے ذریعے ایک نئی عدالت “فیڈرل کانسٹی ٹیوشنل کورٹ” قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جو آئینی معاملات کی حتمی تشریح کرے گی۔ اس مقصد کے لیے آئین کے آرٹیکل 175 میں نئی شق شامل کی جا رہی ہے۔
صدر مملکت آصف علی زرداری نے مدارس رجسٹریشن ترمیمی ایكٹ 2024 پر دستخط کردیئے
مسودے میں ججز کی تعیناتی کا نیا طریقہ کار آرٹیکل 175A میں تجویز کیا گیا ہے، جبکہ آرٹیکل 184 کو مکمل طور پر حذف کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
آرٹیکل 185 میں سپریم کورٹ کے اپیلی دائرہ اختیار کی نئی وضاحت دی گئی ہے، اور آرٹیکل 186 کو ختم کر کے نیا 186A شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
مسودے کے مطابق، فیڈرل کانسٹی ٹیوشنل کورٹ کے فیصلے تمام عدالتوں پر لازم ہوں گے، اور سپریم کورٹ و نئی عدالت اپنے الگ الگ طریقہ کار وضع کریں گی۔
ترمیم میں فوجی قیادت سے متعلق اہم تبدیلیاں بھی شامل ہیں۔ آرٹیکل 243 کے تحت آرمی چیف کو چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ دینے اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اسی آرٹیکل کے مطابق فیلڈ مارشل کو تاحیات عہدہ اور مراعات کا تحفظ دیا جائے گا۔
آئینی ترمیم میں سپریم جوڈیشل کونسل کی ازسرِنو تشکیل، ججز کی تقرری قبول نہ کرنے پر ریٹائر تصور ہونے، اور ٹیکنوکریٹ کی نئی تعریف شامل کرنے کی شقیں بھی شامل ہیں۔
سپریم کورٹ، 26ویں آئینی ترمیم کے بعد پہلا 6 رکنی آئینی بینچ تشکیل
صوبائی کابینہ اور وزیراعظم کے مشیروں کی تعداد میں بھی اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔
ترمیمی مسودے کے مطابق عدالتِ عظمیٰ اور فیڈرل کانسٹی ٹیوشنل کورٹ کے اختیارات واضح طور پر الگ کیے جا رہے ہیں، جس سے پاکستان کا عدالتی ڈھانچہ ایک نئی سمت میں بڑھنے جا رہا ہے۔
