خاموشی کی بھی زبان ہوتی ہے ، احمد کاشف سعید

خاموشی کی زبان ہوتی ہے، احمد کاشف سعید

خاموشی کی بھی زبان ہوتی ہے
مگر یہ تو بتائیں، کہاں ہوتی ہے

ایک لمحے میں سب غم بھول گیا
ماں کی آغوش اک سائبان ہوتی ہے

جب بھی گزروں اس کے گھر کے سامنے سے
نہ جانے دیکھ کر کیوں حیران ہوتی ہے

آہٹ اس کے قدموں کی جیسے ہی آتی ہے
نہ جانے وہ کیوں پریشان ہوتی ہے

کروں یاد اللہ کو جب بھی میں
بڑی سے بڑی مشکل آسان ہوتی ہے

گھومے پھرے تم نگر نگر، جہاں جہاں کاشف
مگر وادی کاغان، وادی کاغان ہوتی ہے

احمد کاشف سعید

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *